علامہ منیر احمد یوسفی
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اِس لئے تمام مخلوقات آپ کی رحمت سے بہرہ ور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کی شانِ میں قرآن پاک کی سورة التوبہ کی آیت 128 میں اپنے حبیب کے اَوصافِ حمیدہ کا ذکر فرمایا ہے کہ اُمّت کی تکلیف اُن پر شاق گزرتی ہے۔ اُن کو شب و روز یہی خواہش دامن گیر ہے کہ اُمّت راہِ راست پر آجائے۔ اِس آیتِ مبارک کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ آپ نے اُمّت کی ہدایت و بہبودی کے لئے کیا کیا مصیبتیں جھیلیں۔ سخت سے سخت مصیبت میں بھی آپ نے بددُعا نہ فرمائی بلکہ ہدایت کی دُعا کی۔ جس روز آندھی یا آسمان پر بادل ہوتے۔ رسول کریم کے چہرہ میں غم و فکر کے آثار نمایاں ہوتے اور آپ کبھی آگے بڑھتے اور کبھی پیچھے ہٹتے۔ جب بارش ہو جاتی تو آپ خوش ہوتے اور حالتِ غم جاتی رہتی۔ اُمّ الموٴمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ سے اِس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ مبادا (قوم عاد کی طرح) یہ عذاب ہو جو میری اُمّت پر مسلط کیا گیا ہو۔ (صحیح مسلم کتاب صلوة الاستسقاء)
کافروں پر رحمت:
پہلی اُمتوں میں نافرمانی پر عذابِ الٰہی نازل ہوتا تھا مگر حضور کے وجودِ مسعود کی برکت سے کفار عذابِ دنیوی سے محفوظ ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ کا اِرشاد عظیم ہے: ”اور اللہ اُن کو عذاب میں مبتلا نہ کرے گا جب تک آپ اُن میں ہیں“ (الانفال: 33)
ایک دفعہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا‘ یا رسول اللہ ! آپ مشرکین پر بد دُعا فرمائیں آپ نے فرمایا: ”میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا میں تو صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں“ (مشکوة بحوالہ صحیح مسلم باب فی اخلاقہ و شمائلہ )۔ حضرت طفیل بن عمرو دَوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ نے قبیلہ دَوس میں دعوتِ اِسلام کے لئے بھیجا تھا۔ اُنہوں نے خدمتِ اَقدس میں حاضر ہو کر یوں عرض کیا: ”قبیلہ دَوس ہلاک ہو گیا کیونکہ انہوں نے نافرمانی کی اور اِطاعت سے اِنکار کر دیا۔ آپ اُن پر بددُعا فرمائیں“ لوگوں کو گمان ہوا کہ آپ بد دُعا فرمانے لگے ہیں۔ مگر آپ نے یوں دُعا فرمائی:
”اے میرے اللہ قبیلہ دَوس کو ہدایت عطا فرما اور اُن کو مسلمان کر کے لا“ (صحیح بخاری کتاب المغازی‘ باب قصتہ دوس)۔ غزوہ اُحد میں دانت مبارک کا کچھ حصہ شہید ہو گیا تھا اور چہرہ مبارک خون آلود تھا۔ مگر زبانِ مبارک پر یہ اَلفاظ تھے: ”اے میرے اللہ میری قوم کا یہ گناہ معاف کر دے کیونکہ وہ نہیں جانتے۔“
عورتوں پر شفقت و رحمت:
نبی کریم کی تشریف آوری سے اِس مظلوم گروہ کی وہ حق رسی ہوئی کہ دُنیا کے کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔ حضور نے عورت کو عزت و اِحترام کے دربار میں مردوں کے برابر جگہ دی۔ اسلام سے پہلے کثرت ازدواج کی کوئی حد نہ تھی۔ اِسلام نے اِسے بصورت ضرورت چار تک محدود کر دیا اور چار کو بھی شرطِ عدل پر معلق رکھا۔
یتامیٰ اور مساکین و بیوگان پر شفقت و رحمت:
یتیموں اور غریبوں پر آپ کی بڑی شفقت تھی۔ چنانچہ یتیم کی خبر گیری کرنے والے کا درجہ بتانے کے لئے آپ نے اپنی انگشتِ سبابہ و وسطیٰ کے درمیان کچھ کشادگی رکھ کر فرمایا ”میں اور یتیم کا متکفل خواہ یتیم اُس کے رشتہ داروں میں سے ہو یا اَجنبیوں میں سے ہو بہشت میں یوں ہونگے“ (مشکوة بحوالہ صحیح بخاری باب الشفقة والرحمة علی الخلق)۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں‘ رسول اللہ نے فرمایا کہ جو شخص محض رضائے الٰہی کے لئے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے۔ اُس کے لئے ہر بال کے مقابلہ میں جس پر اُس کا ہاتھ پھرتا ہے نیکیاں ہیں۔
آپ نے بیوگان و مساکین کی خبر گیری کا ثواب آپ نے یوں بیان فرمایا ”بیوگان و مساکین پر خرچ کرنے والا راہِ خدا میں جہاد و حج میں خرچ کرنے والے کی مانند ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ نے یوں دُعا فرمائی ”اے میرے اللہ ! مجھے مسکین زندہ رکھ اور مجھے مسکین موت دے اور قیامت کے دن غریبوں کے گروہ میں میرا حشر فرما“ (ترمذی ابواب الزہد)
اُمّ الموٴمنین حضرت سیّدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا، اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کسی مسکین کو اپنے دروازے سے نامُراد نہ پھیرنا۔ گو اپنے گھر میں نصف خرما ہی کیوں نہ ہو۔ اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ! غریبوں سے محبت رکھ اور اُن کو اپنے سے نزدیک کر۔ اللہ تجھے قیامت کے دن اپنے سے نزدیک کرے گا۔“
بچوں پر شفقت ورحمت:
نبی کریم بچوں پر نہایت شفقت فرماتے تھے۔ بچے آپ کی خدمت میں بغرض دْعا لائے جاتے تھے۔ ایک روز اُمّ قیس بنت محصنرضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے شیر خوار بچہ کو خدمت اقدس میں لائیں۔ آپ نے اُس بچہ کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اُس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ آپ نے اس پر پانی بہا دیا اور کچھ نہ کہا۔ (صحیح بخاری کتاب الوضوء باب بول الصبیان)
آپ بچوں کو چومتے اور پیار فرماتے تھے۔ ایک روز آپ حضر
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اِس لئے تمام مخلوقات آپ کی رحمت سے بہرہ ور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کی شانِ میں قرآن پاک کی سورة التوبہ کی آیت 128 میں اپنے حبیب کے اَوصافِ حمیدہ کا ذکر فرمایا ہے کہ اُمّت کی تکلیف اُن پر شاق گزرتی ہے۔ اُن کو شب و روز یہی خواہش دامن گیر ہے کہ اُمّت راہِ راست پر آجائے۔ اِس آیتِ مبارک کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ آپ نے اُمّت کی ہدایت و بہبودی کے لئے کیا کیا مصیبتیں جھیلیں۔ سخت سے سخت مصیبت میں بھی آپ نے بددُعا نہ فرمائی بلکہ ہدایت کی دُعا کی۔ جس روز آندھی یا آسمان پر بادل ہوتے۔ رسول کریم کے چہرہ میں غم و فکر کے آثار نمایاں ہوتے اور آپ کبھی آگے بڑھتے اور کبھی پیچھے ہٹتے۔ جب بارش ہو جاتی تو آپ خوش ہوتے اور حالتِ غم جاتی رہتی۔ اُمّ الموٴمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ سے اِس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ مبادا (قوم عاد کی طرح) یہ عذاب ہو جو میری اُمّت پر مسلط کیا گیا ہو۔ (صحیح مسلم کتاب صلوة الاستسقاء)
کافروں پر رحمت:
پہلی اُمتوں میں نافرمانی پر عذابِ الٰہی نازل ہوتا تھا مگر حضور کے وجودِ مسعود کی برکت سے کفار عذابِ دنیوی سے محفوظ ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ کا اِرشاد عظیم ہے: ”اور اللہ اُن کو عذاب میں مبتلا نہ کرے گا جب تک آپ اُن میں ہیں“ (الانفال: 33)
ایک دفعہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا‘ یا رسول اللہ ! آپ مشرکین پر بد دُعا فرمائیں آپ نے فرمایا: ”میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا میں تو صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں“ (مشکوة بحوالہ صحیح مسلم باب فی اخلاقہ و شمائلہ )۔ حضرت طفیل بن عمرو دَوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ نے قبیلہ دَوس میں دعوتِ اِسلام کے لئے بھیجا تھا۔ اُنہوں نے خدمتِ اَقدس میں حاضر ہو کر یوں عرض کیا: ”قبیلہ دَوس ہلاک ہو گیا کیونکہ انہوں نے نافرمانی کی اور اِطاعت سے اِنکار کر دیا۔ آپ اُن پر بددُعا فرمائیں“ لوگوں کو گمان ہوا کہ آپ بد دُعا فرمانے لگے ہیں۔ مگر آپ نے یوں دُعا فرمائی:
”اے میرے اللہ قبیلہ دَوس کو ہدایت عطا فرما اور اُن کو مسلمان کر کے لا“ (صحیح بخاری کتاب المغازی‘ باب قصتہ دوس)۔ غزوہ اُحد میں دانت مبارک کا کچھ حصہ شہید ہو گیا تھا اور چہرہ مبارک خون آلود تھا۔ مگر زبانِ مبارک پر یہ اَلفاظ تھے: ”اے میرے اللہ میری قوم کا یہ گناہ معاف کر دے کیونکہ وہ نہیں جانتے۔“
عورتوں پر شفقت و رحمت:
نبی کریم کی تشریف آوری سے اِس مظلوم گروہ کی وہ حق رسی ہوئی کہ دُنیا کے کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔ حضور نے عورت کو عزت و اِحترام کے دربار میں مردوں کے برابر جگہ دی۔ اسلام سے پہلے کثرت ازدواج کی کوئی حد نہ تھی۔ اِسلام نے اِسے بصورت ضرورت چار تک محدود کر دیا اور چار کو بھی شرطِ عدل پر معلق رکھا۔
یتامیٰ اور مساکین و بیوگان پر شفقت و رحمت:
یتیموں اور غریبوں پر آپ کی بڑی شفقت تھی۔ چنانچہ یتیم کی خبر گیری کرنے والے کا درجہ بتانے کے لئے آپ نے اپنی انگشتِ سبابہ و وسطیٰ کے درمیان کچھ کشادگی رکھ کر فرمایا ”میں اور یتیم کا متکفل خواہ یتیم اُس کے رشتہ داروں میں سے ہو یا اَجنبیوں میں سے ہو بہشت میں یوں ہونگے“ (مشکوة بحوالہ صحیح بخاری باب الشفقة والرحمة علی الخلق)۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں‘ رسول اللہ نے فرمایا کہ جو شخص محض رضائے الٰہی کے لئے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے۔ اُس کے لئے ہر بال کے مقابلہ میں جس پر اُس کا ہاتھ پھرتا ہے نیکیاں ہیں۔
آپ نے بیوگان و مساکین کی خبر گیری کا ثواب آپ نے یوں بیان فرمایا ”بیوگان و مساکین پر خرچ کرنے والا راہِ خدا میں جہاد و حج میں خرچ کرنے والے کی مانند ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ نے یوں دُعا فرمائی ”اے میرے اللہ ! مجھے مسکین زندہ رکھ اور مجھے مسکین موت دے اور قیامت کے دن غریبوں کے گروہ میں میرا حشر فرما“ (ترمذی ابواب الزہد)
اُمّ الموٴمنین حضرت سیّدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا، اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کسی مسکین کو اپنے دروازے سے نامُراد نہ پھیرنا۔ گو اپنے گھر میں نصف خرما ہی کیوں نہ ہو۔ اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ! غریبوں سے محبت رکھ اور اُن کو اپنے سے نزدیک کر۔ اللہ تجھے قیامت کے دن اپنے سے نزدیک کرے گا۔“
بچوں پر شفقت ورحمت:
نبی کریم بچوں پر نہایت شفقت فرماتے تھے۔ بچے آپ کی خدمت میں بغرض دْعا لائے جاتے تھے۔ ایک روز اُمّ قیس بنت محصنرضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے شیر خوار بچہ کو خدمت اقدس میں لائیں۔ آپ نے اُس بچہ کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اُس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ آپ نے اس پر پانی بہا دیا اور کچھ نہ کہا۔ (صحیح بخاری کتاب الوضوء باب بول الصبیان)
آپ بچوں کو چومتے اور پیار فرماتے تھے۔ ایک روز آپ حضر
posted from Bloggeroid
0 comments:
Post a Comment